اب تک قتیلِ ناوکِ یاراں میں ہوش ہے
اے دوستوں کی مجلسِ شوری صلح ہو
Printable View
اب تک قتیلِ ناوکِ یاراں میں ہوش ہے
اے دوستوں کی مجلسِ شوری صلح ہو
"میری سنو جو دوشِ نصیحت نیوش ہے
دیکھو مجھے جو دیدۂ عبرت نگاہ ہو"
چمک سکے جو مری زیست کے اندھیرے میں
وہ اک چراغ کسی سمت سے اُبھر نہ سکا
یہاں تمھاری نظر سے بھی دیپ جل نہ سکے
یہاں تمھارا تبسم بھی کام کر نہ سکا
دل میں وہ درد نہاں ہے کہ بتائیں کس کو
ہاں اگر ہے تو کوئی محرمِ اَسرار سنے
خلوتِ ذہن کے ہر راز کی سرگوشی کو
یہ نہ ہو جائے کہ بازار کا بازار سنے
نرمیِ رمز و کنایہ کا تقاضا یہ ہے
پرتَوِ شاخ کہے، سایۂ دیوار سنے
ہونٹ ہلنے بھی نہ پائیں کہ معانی کھُل جائیں
لمحۂ شوق کہے، ساعتِ دیدار سنے
میں تو سو مرتبہ تیشے کی زباں سے کہہ دوں
تُو جو افسانۂ فرہاد بس اِک بار سنے
پھر آج یاس کی تاریکیوں میں ڈوب گئی !
وہ اک نوا جو ستاروں کو چُوم سکتی تھی
سکوت ِ شب کے تسلسل میں کھو گئی چپ چاپ
جو یاد وقت کے محور پہ گھوم سکتی تھی