میں جنگلوں کی رات سے تو بچ آگیا
اب کیا کروں کہ وادیِ نوعِ بشر میں ہوں
Printable View
میں جنگلوں کی رات سے تو بچ آگیا
اب کیا کروں کہ وادیِ نوعِ بشر میں ہوں
جی چاہتا ہے مثلِ ضیا تجھ سے تجھ سے مِل سکوں
مجبور ہوں کہ محبسِ دیوار و در میں ہوں
میں ہم نشینِ خلوتِ شہنازِ لالہ رُخ
میں گرمئ پسینۂ اہلِ ہنر میں ہوں
خوابوں کے راہروو، مجھے پہچاننے کے بعد
آواز دو کہ اصل میں ہوں یا خبر میں ہوں
اتنی تو دور منزلِ وارفتگاں نہ تھی
کن راستوں پہ ہوں کہ ابھی تک سفر میں ہوں
کیسا حصار ہے جو مجھے چھوڑتا نہیں
میں کس طلسمِ ہوش رُبا کے اثر میں ہوں
زنداں میں ہوں کہ اپنے وطن کی فصیل میں
عزّت سے ہوں کہ جسم فروشوں کے گھر میں ہوں
یوں ہر گلی کنارہ کش و چشم پوش ہے
جیسے ہمارا گھر سے نکلنا گناہ ہو
منبر میں ایسا لحن ہے ایسا سرّوش ہے
جیسے ہمارا نامۂ رندی سیاہ ہو
ہوں دن گزر رہے ہیں کہ نہ فردا نہ دوش ہے
اے اعتبارِ وقت معّین نگاہ ہو