میرے ہاتھوں میں دھڑکتی ہے شب و روز کی نبض
وقت کو روک کے تاریخ کا عنواں بن جاؤں
Printable View
میرے ہاتھوں میں دھڑکتی ہے شب و روز کی نبض
وقت کو روک کے تاریخ کا عنواں بن جاؤں
غم کا دعویٰ ہے کہ اس عالمِ سرشاری میں
جس قدر چاک ہو، اُتنا ہی گریباں بن جاؤں
تجھ کو اس شدّتِ احساس سے چاہا ہے کہ اب
ایک ہی بات ہے گلشن کہ بیاباں بن جاؤں
تو کسی اور کی ہو کر بھی مرے دل میں رہے
میں اجڑ کر بھی ہم آہنگ ِ بہاراں بن جاؤں
بے نُور ہوں کہ شمعِ سرِ راہ گزر میں ہوں
بے رنگ ہوں کہ گردشِ خونِ جگر میں ہوں
اندھا ہوں یوں کہ کور نگاہوں میں رہ سکوں
بہرہ ہوں یوں کہ قصّۂ نا معتبر میں ہوں
ذرّے جوان ہو کے اُفق تک پہنچ گئے
میں اتنے ماہ و سال سے بطنِ گہر میں ہوں
مستقبلِ بعید کی آنکھوں کی روشنی
اوروں میں ہوں نہ ہوں مگر اپنی نظر میں ہوں
لاکھوں شہادتوں نے مجھے واسطے دیئے
میں شب گزیدہ پھر بھی تلاشِ سحر میں ہوں
سفّاک بچپنوں کا کھلونا بنا ہوا ہے
دنیا کی زد میں پنجۂ شمس و قمر میں ہوں