دیکنا اہلِ جنوں ساعتِ شب آ پہنچی
اب کوئی نقش بدیوار نہ ہونے پائے
Printable View
دیکنا اہلِ جنوں ساعتِ شب آ پہنچی
اب کوئی نقش بدیوار نہ ہونے پائے
اب کے کھل جائیں خزانے نفسِ سوزاں کے
اب کے محرومی اظہار نہ ہونے پائے
یہ جو غدّار ہے اپنی ہی صفِ اوّل میں
غیر کے ہاتھ کی تلوار نہ ہونے پائے
یوں تو ہے جوہرِ گفتار بڑا وصف مگر
وجہ بیماری گفتار نہ ہونے پائے
دشت میں خونِ حسین ابنِ علی بہ جائے
بیعتِ حاکمِ کفّار نہ ہونے پائے
نئی نسل اس انداز سے نکلے سرِ رزم
کہ مورّخ کی گُنہ گار نہ ہونے پائے
میں تیرے راگ سے اس طرح بھرا ہوں جیسے
کوئی چھیڑے تو اک نغمہ عرفاں بن جاؤں
ذہن ہر وقت ستاروں میں رہا کرتا ہے
کیا عجب مین بھی کوئی کرمکِ حیراں بن جاؤں
رازِ بستہ کو نشاناتِ خفی میں پڑھ لوں
واقفِ صورتِ ارواحِ بزرگاں بن جاؤں
دیکھنا اوجِ محبّت کہ زمیں کے اُوپر
ایسے چلتا ہوں کہ چاہوں تو سُلیماں بن جاؤں