مطلب معاملات کا ، کچھ پا گیا ہوں میں
ہنس کر فریبِ چشمِ کرم کھا گیا ہوں میں
Printable View
مطلب معاملات کا ، کچھ پا گیا ہوں میں
ہنس کر فریبِ چشمِ کرم کھا گیا ہوں میں
بس انتہا ہے چھوڑئیے بس رہنے دیجئے
خود اپنے اعتماد سے شرما گیا ہوں میں
شاید مجھے نکال کے پچھتا رہے ہوں آپ
محفل میں اس خیال سے پھر آگیا ہوں
نکلا تھا میکدے سے کہ اب گھر چلوں عدمؔ
گھبرا کے سوئے میکدہ پھر آگیا ہوں
میکدہ تھا ، چاندنی تھی ، میں نہ تھا
اک مجسم بے خودی تھی ، میں نہ تھا
عشق جب دم توڑتا تھا ، وہ نہ تھے
موت جب سر دھن رہی تھی ، میں نہ تھا
طور پر چھیڑا تھا جس نے آپ کو
وہ میری دیوانگی تھی ، میں نہ تھا
جس نے مہ پاروں کے دل پگھلا دیے
وہ تو میری شاعری تھی ، میں نہ تھا
دیر و کعبہ میں عدم حیرت فروش
دو جہاں کی بد ظنی تھی ، میں نہ تھا
مے نہیں قصرِ زندگانی ہے
روشنی ہے ، ہوا ہے ، پانی ہے