وہ بھی تو سنیں میرے یہ اشعار کسی روز
جو لوگ نئی نسل کو اچھا نہیں کہتے
Printable View
وہ بھی تو سنیں میرے یہ اشعار کسی روز
جو لوگ نئی نسل کو اچھا نہیں کہتے
کہیں کہیں پہ ستاروں کے ٹوٹنے کے سوا
افق اداس ہے دنیا بڑی اندھیری ہے
لہو جلے تو جلے اس لہو سے کیا ہوگا
کچھ ایک راہ نہیں ہر فضا لُٹیری ہے
بس ایک گوشہ میں کُچھ دیپ جگمگاتے ہیں
وہ ایک گوشہ جہاں زُلفِ شب گھنیری ہے
نظر پہ شام کی وحشت ، لبوں پہ رات کی اوس
کسے طرب میں سکوں ، کس کو غم میں سیری ہے
یقین ہی نہیں آتا کہ تیری خدمت میں
یہ شعر میں نے کہے ہیں ! غزل یہ میری ہے !
کسی اور غم میں اتنی خلش نہاں نہیں ہے،
غم دل مرے رفیقو! غم رائیگاں نہیں ہے
کوئی ہم نفس نہیں ہے، کوئ راز داں نہیں ہے
فقط ایک دل تھا اب تک سو و ہ مہرباں نہیں ہے
کسی آنکھ کو صدا دو کسی زلف کو پکار و
بڑی دھوپ پڑ رہی ہے کوئی سائباں نہیں ہے
انہی پتھروں پہ چل کر اگر آ سکو تو آؤ
مرے گھر کے راستے میں کوئی کہکشاں نہیں ہے