حل کچھ تو نکل آئے گا حالت کی ضد کا
اے کثرتِ آلام! میں کچھ سوچ رہا ہوں
Printable View
حل کچھ تو نکل آئے گا حالت کی ضد کا
اے کثرتِ آلام! میں کچھ سوچ رہا ہوں
پھر آج عدم شام سے غمگیں ہے طبیعت
پھر آج سرِ شام میں کچھ سوچ رہا ہوں
خدا کو سجدہ نہ کر ، گل رُخوں کو پیار نہ کر
مسافری میں محبت کے کاروبار نہ کر
سوال کر کے میں خود ہی بہت پشیماں ہوں
جواب دے کے مجھے اور شرمسار نہ کر
کتنی بے ساختہ خطاہوں میں
آپکی رغبت و رضا ہوں میں
میں نے جب ساز چھیڑنا چاہا
خامشی چیخ اٹھی ، صدا ہوں میں
حشر کی صبح تک تو جاگوں گا
رات کا آخری دیا ہوں میں
آپ نے مجھ کو خوب پہچانا
واقعی سخت بے وفا ہوں میں
میں نے سمجھا تھا میں محبت ہوں
میں نے سمجھا تھا مدعا ہوں میں
کاش مجھ کو کوئی بتائے عدم
کس پری وش کی بددعا ہوں میں