جس سے چھپنا چاہتا ہوں میں عدم
وہ ستمگر جا بجا موجود ہے
Printable View
جس سے چھپنا چاہتا ہوں میں عدم
وہ ستمگر جا بجا موجود ہے
دوستوں کے نام یاد آنے لگے
تلخ و شیریں جام یاد آنے لگے
وقت جوں جوں رائگاں ہوتا گیا
زندگی کو کام یاد آنے لگے
خوبصورت تہمتیں چبھنے لگیں
دل نشیں الزام یاد آنے لگے
پھر خیال آتے ہی شام ہجر کا
مرمریں اجسام یاد آنے لگے
بھولنا چاہا تھا ا ن کو اے عدم
پھر وہ صبح و شام یاد آنے لگے
غموں کی رات بڑی بے کلی سے گزری ہے
گزر گئی ہے مگر جاں کئی سے گزری ہے
مسیح و خضر کی عمریں نثار ہوں اس پر
وہ زندگی کی گھڑی جو خوشی سے گزری ہے
خزاں تو خیر خزاں ہے ، ہمارے گلشن سے
بہار بھی بڑی آزردگی سے گزری ہے
گلوں سے دوستی ہے ، شبنم ستانوں میں رہتا ہوں
بڑے دلچسپ اور شاداب رومانوں میں رہتا ہوں