اس کا چہرہ دیکھ رہے تھے آئینہ اور میں
پہلے وہ تصویر ہوا اور اس کے بعد ہوں میں
Printable View
اس کا چہرہ دیکھ رہے تھے آئینہ اور میں
پہلے وہ تصویر ہوا اور اس کے بعد ہوں میں
رسوائیوں سے بڑھ تو گیا زندگی کا بوجھ
پر یہ ہوا کہ خود سے ندامت نہیں رہی
کیا نذر دیں جو کوئی نئی آرزو کریں
دل میں تو ٹوٹنے کی بھی ہمت نہیں رہی
سلامت آئینے میں ایک چہرہ
شکستہ ہو تو کتنے دیکھتا ہے
جن کو دعویٰ تھا مسیحائی کا
اپنا ہی دیدۂ نم بھول گئے
اپنے معاملے میں حساب اسکا اور ہے
سو بار اے زباں سنبھل آپ کے لیے
زنگی ایک بار ملتی ہے
دوستو زندگی سے پیار کرو
خوب پایا ہے صلہ تیری پر ستاری کا
دیکھ اے صبح ِ طرب آج کہاں ہیں ہم لوگ
جتنے آگ کے دریا ہیں سب پار ہمیں کو کرنا ہپے
دنیا کس کے ساتھ آئی ہے دنیا تو دیوانی ہے
پھول میں ہو کہ ہوا میں خوشبو
نور ہے نور ہی برسائے گی