گھٹاؤں کی آمد کو ساون ترستے
فضاؤں میں بہکی بغاوت نہ ہوتی
Printable View
گھٹاؤں کی آمد کو ساون ترستے
فضاؤں میں بہکی بغاوت نہ ہوتی
فقیروں کو عرفان ہستی نہ ملتا
عطا زاہدوں کو عبادت نہ ہوتی
مسافر سدا منزلوں پر بھٹکتے
سفینوں کو ساحل کی قربت نہ ہوتی
ہر اک پھول کا رنگ پھیکا سا ہوتا
نسیم بہاراں میں نکہت نہ ہوتی
خدائی کا انصاف خاموش رہتا
سنا ہے کسی کی شفاعت نہ ہوتی
صراحی جام سے ٹکرائیے ، برسات کے دن ہیں
حدیثِ زندگی دہرائیے، برسات کے دن ہیں
سفینہ لے چلا ہے کس مخالف سمت کو ظالم
ذرا ملّاح کو سمجھائیے، برسات کے دن ہیں
کسی پُر نور تہمت کی ضرورت ہے گھٹاؤں کو
کہیں سے مہ وشوں کو لائیے، برسات کے دن ہیں
طبیعت گردشِ دوراں کی گھبرائی ہوئی سی ہے
پریشاں زلف کو سلجھائیے، برسات کے دن ہیں
بہاریں ان دنوں دشتِ بیاباں میں آتی ہیں
فقیروں پر کرم فرمائیے، برسات کے دن ہیں