ندیم اس نے نہیں بدلا ہے غم کا پیراہن
تو پھر یوں ہے کہ کچھ ماتم ابھی محفوظ ہیں
Printable View
ندیم اس نے نہیں بدلا ہے غم کا پیراہن
تو پھر یوں ہے کہ کچھ ماتم ابھی محفوظ ہیں
محبت لازمی ہے مانتا ہوں
مگر ہمزاد اب میں تھک گیا ہوں
تمہارا ہجر کاندھے پر رکھا ہے
نہ جانے کس جگہ میں جا رہا ہوں
مری پہلی کمائی ہے محبت
محبت جو تمہیں میں دے چکا ہوں
مرے چاروں طرف اک شور سا ہے
مگر پھر بھی یہاں تنہا کھڑا ہوں
کوئی تو ہو جو میرے درد بانٹے
مسلسل ہجر کا مارا ہوا ہوں
محبت، ہجر نفرت مل چکی ہے
میں تقریباً مکمل ہو چکا ہوں
اپنی تصویر لگا دی ہے ترے خواب کے ساتھ
میں نے یوں عمر گزاری ہے ترے خواب کے ساتھ
میں جہاں پر تھا وہیں پر ہوں مگر جانے کیوں
روز اک دھول سی اڑتی ہے ترے خواب کے ساتھ
شبنمی رات کی سوغات بھی اشکوں کی طرح
نوکِ مژگاں پہ سجالی ہے ترے خواب کے ساتھ