آئینے سے حضور ہی کی طرح
چشم کا واسطہ خیالی ہے
Printable View
آئینے سے حضور ہی کی طرح
چشم کا واسطہ خیالی ہے
حسن پتھر کی ایک مورت ہے
عشق پھولوں کی ایک ڈالی ہے
موت اک انگبیں کا ساغر ہے
زندگی زہر کی پیالی ہے
چراغِ طور جلاؤ ! بڑا اندھیرا ہے
ذرا نقاب اٹھاؤ ! بڑا اندھیرا ہے
ابھی تو صبح کے ماتھے کا رنگ کالا ہے
ابھی فریب نہ کھاؤ ! بڑا اندھیرا ہے
وہ جن کے ہوتے ہیں خورشید آستینوں میں
انہیں کہیں سے بلاؤ ! بڑا اندھیرا ہے
مجھے تمہاری نگاہوں پہ اعتماد نہیں
مرے قریب نہ آؤ ! بڑا اندھیرا ہے
فرازِ عرش سے ٹوٹا ہوا کوئی تارا
کہیں سے ڈھونڈ کے لاؤ بڑا اندھیرا ہے
بصیرتوں پہ اجالوں کا خوف طاری
مجھے یقین دلاؤ ! بڑا اندھیرا ہے
جسے زبانِ خرد میں شراب کہتے ہیں
وہ روشنی سی پلاؤ ! بڑا اندھیرا ہے