خیر اس ہجر میں آنکھیں تو چلی جاتی ہیں
ٹوٹ جاتے ہیں کلائی کے نئے کنگن بھی
Printable View
خیر اس ہجر میں آنکھیں تو چلی جاتی ہیں
ٹوٹ جاتے ہیں کلائی کے نئے کنگن بھی
جیسے الاؤ پر سے کبوتر گزر کے آئے
لَوٹا ہے اب کے ہو کے بہت نامہ بر اداس
بھیک مل جاتی ہے اور پانی بھی پی لیتا ہوں
ہاتھ کشکول بھی ہیں اور مرے برتن بھی
پہروں کے پہر،یُوں کبھی گڈ مڈ ہوئے نہ تھے
شب ہے اداس، شام اداس اور سحر اداس
کیا ضروری ہے کسی مور کا ہونا بن میں
رقص کرتا ہے ترے دھیان میں تو تن من بھی
کیوں ترے غم میں کسی اور کو شامل کر لوں
کس لیے روئے مرے ساتھ مرا آنگن بھی
ایک ویران ریاست کی طرح ہوں میں ندیم
فتح کر کے مجھے پچھتائے مرے دشمن بھی
تیر، نیزے، ڈھال اور تلوار دے کر آ گیا
اپنا سب کچھ ہی سپہ سالار دے کر آ گیا
ہارنے کے خوف سے یہ فیصلہ کرنا پڑا
جنگ سے پہلے میں سب ہتھیار دے کر آ گیا
عین ممکن ہے وہ میرا نام تک رہنے نہ دے
میں اسے اپنے سبھی آثار دے کر آ گیا