ہم بدگماں ہوں پیار سے ایسے بھی ہم نہیں
ٹل جائیں تجھ نگار سے ایسے بھی ہم نہیں
Printable View
ہم بدگماں ہوں پیار سے ایسے بھی ہم نہیں
ٹل جائیں تجھ نگار سے ایسے بھی ہم نہیں
پھُولوں تلک سفر ہی جب اپنا ہے مدّعا
ڈر جائیں خار زار سے ،ایسے بھی ہم نہیں
اک اور بھی جنم ہو تو دیکھیں گے رہ تری
ٹھٹکیں ہم انتظار سے ایسے بھی ہم نہیں
خُو ہے جو سر بلندیِ سر کی ہمیں ۔۔ اِسے
بدلیں گے انکسار سے ایسے بھی ہم نہیں
جاناں !ترا وہ تیرِ نظر ہو کہ تیغِ غیر
جھجکیں کسی بھی و ار سے ،ایسے بھی ہم نہیں
ہمرہِ بادِ صبا پھُول کھِلانے آتے
تم بھی اے کاش! مرے بھاگ جگانے آتے
چاند کے قرب سے بے کل ہو سمندر جیسے
ایسی ہلچل مرے دل میں بھی مچانے آتے
جیسے بارش کی جگہ پھُول پہ شبنم کا نزول
تم بھی ایسے میں کسی اور بہانے آتے
رنگِرخسار سے دہکاتے شب و روز مرے
آتشِ گل سے مرا باغ جلانے آتے
ہم تمہیں مہ کے برابر دیکھتے
اِک نظر اے کاش مڑ کر دیکھتے
جھانکتے اِک بار گر تم بام سے
دل میں برپا ہم بھی محشر دیکھتے
ہاں تمہارا لمس گر ہوتا بہم
سرسراتی ہاتھ میں زر دیکھتے
موج جیسے سبزۂ ساحل پہ ہو
تم ہمیں خود پر نچھاور دیکھتے
ہم نے بھی اب نسبت اُس سے ٹھہرا لی ہے
وہ لڑکی جو شرمیلے نینوں والی ہے
جو درد گریزاں دل سے تھا وہ جا بھی چکا
کچھ روز سے اب پنجرہ پنچھی سے خالی ہے
احوالِ درُوں چہرے سے نہیں کھُلنے دیتے
لو ہم نے بھی ہنس کھیل کے بات بنا لی ہے
لَو دیکھ کے شاید کوئی مسافر آ پہنچے
ہم نے بھی دشت کنارے آگ جلا لی ہے
اُس شوخ کا چہر ہ شوخ گلابوں جیساہے
اور کان میں پہلی کے چندا سی بالی ہے
ہیں اِسی بات پہ مسرور زمانے والے
ہم سے لے جائیں تمہیں دُور زمانے والے
دیکھنا رُو بہ نمو پھر شجر امید کا ہے
شاخ سے جھاڑ نہ دیں بُور زمانے والے
دستبردار ہوں چاہت ہی سے خود اہلِ جنوں
یوں بھی کر دیتے ہیں مجبور زمانے والے
ٹھوکروں سے نہ سہی ضربِ نگاہِ بد سے
آئنہ دل کا کریں چُور زمانے والے
برق باغوں پہ گرے یا کوئی تارا ٹوٹے
کس نے دیکھے کبھی رنجور زمانے والے
لازم ہے اِک دَورِ طرب کے بعد مجھے تو بھول بھی جا
میں اِک بار تجھے پھر چاہوں، عہد نیا آغاز کروں
آ دیکھ گُل بہ گُل ہے ترے تن بدن کی باس
اُتری ہے چاند تک میں ترے پیرہن کی باس
گل جس طرح رہے ہوں کبھی ہم نشین خاک
مجھ میں بھی اِس طرح کی ہے تجھ سے ملن کی باس
ہاں ہاں مجھے جلائے جو تیرے فراق میں
ہر رگ میں جاگزیں ہے اُسی اِک اگن کی باس
یوں اب کے اشک یاد میں تیری بہا کیے
بارش برس کے عام کرے جیسے بن کی باس
کھٹکا یہی تو تجھ سے مجھے ابتدا سے تھا
جانا ں!تجھے بھی کھینچ نہ لے جائے دَھن کی باس
اب کے بھی چاند چہرہ دکھایا نہیں ہم نہیں بولتے
آپ نے اپنا وعدہ نبھایا نہیں ہم نہیں بولتے
وہ کہ پہلے پہل سرخ ہونٹوں پہ تھا مژدۂ عید سا
کوئی مژدہ پھر ایسا سنایا نہیں ہم نہیں بولتے
چاہتوں کا جو سندیس لیکر گیا آپ تک آپ نے
بام سے وہ کبوتر اڑایا نہیں ہم نہیں بولتے
مثل شعلوں کے لَو دے اٹھے جو بہ سطحِ نظر آپ نے
پیرہن وہ بدن پر سجایا نہیں ہم نہیں بولتے
وہ کہ مہکار جس کی بہ شدّت ہمیں بھی بلاتی کبھی
پھول انگناں میں ایسا کھلایا نہیں ہم نہیں بولتے
آپ ہی نے رازِ دل پوچھا نہیں
ہم نہ بتلا تے، نہیں، ایسا نہیں
آپ سے ملنے کا ایسا تھا نشہ
رنگ تھا جیسے کوئی ،اُترا نہیں
سنگ دل تھے اہلِ دنیا بھی بہت
آپ نے بھی ،پیا ر سے دیکھا نہیں
دم بدم تھیں اِک ہمِیں پر یورشیں
تختۂ غیراں کبھی الٹا نہیں
توڑنا، پھر جوڑنا، پھر توڑنا
ہم کھلونوں پر کرم کیا کیا نہیں
اپنے پیاروں کو جی سے بھُلانے لگے تم نے اچّھا کیا
غیر سارے تمہیں یاد آنے لگے تم نے اچّھا کیا