یار ہما را ایلیا ہم سے اٹھا لیا گیا
بیٹھے اب اپنی ذات میں ایلیا ایلیا کر و
Printable View
یار ہما را ایلیا ہم سے اٹھا لیا گیا
بیٹھے اب اپنی ذات میں ایلیا ایلیا کر و
منزل شوق گریزاں ہے گریزاں ہی سہی
راہ گم گشتہ مسافر کا سفر تو دیکھو
جتنے آگ کے دریا ہیں سب پار ہمیں کو کرنا ہیں
دنیا کس کے ساتھ آئی ہے ، دنیا تو دیوانی ہے
ہو دیدۂ ہنر دلِ درد آشنا کی خیر!
کب لذّتِ خیال میں دریا نہیں ہوں میں
وہ پیاس ہے کہ دعا بن گیا ہے میرا وُجود
کب آئے گا جو کوئی ابرِ تر بھی آتا ہے
کھینچے ہے مری طبعِ سخن اپنی ہی جانب
اور گردشِ دوراں ہے کہ دکھلائے سماں اور
تھا دکھ اپنی پیدائش کا
جو لذت میں انزال ہوا
تمہارے نام پہ جس آگ میں جلائے گئے
وہ آگ پھول ہے وہ کیمیا ہمارے لئے
دئیے جلائے ہوئے ساتھ ساتھ رہتی ہے
تمہاری یاد تمہاری دعا ہمارے لئے
کوئی تقسیم نئی کر کے چلا جاتا ہے
جو بھی آتا ہے مرے گھر کی نگہبانی کو