زندگی خانقاہ شہود و بقا
اور لوح مزار فنا آدمی
Printable View
زندگی خانقاہ شہود و بقا
اور لوح مزار فنا آدمی
صبح دم چاند کی رخصتی کا سماں
جس طرح بحر میں ڈوبتا آدمی
کچھ فرشتوں کی تقدیس کے واسطے
سہہ گیا آدمی کی جفا آدمی
گونجتی ہی رہے گی فلک در فلک
ہے مشیت کی ایسی صدا آدمی
اس کی مورتیں پوجتے پوجتے
ایک تصویر سی بن گیا آدمی
مرے سوزِ دل کے جلوے یہ مکاں مکاں اجالے
مری آہِ پر اثر نے کئی آفتاب ڈھالے
مجھے گردشِ فلک سے نہیں احتجاج کوئی
کہ متاعِ جان و دل ہے تری زلف کے حوالے
یہ سماں بھی ہم نے دیکھا سرِ خاک رُل رہے ہیں
گل و انگبیں کے مالک مہ و کہکشاں کے پالے
مری آنکھ نے سنی ہے کئی زمزموں کی آہٹ
نہیںبربطوں سے کمتر مئے ناب کے پیالے
ابھی رنگ آنسوؤں میں ہے تری عقیدتوں کا
ابھی دل میں بس رہے ہیں تری یاد کے شوالے