یہ ہم جو پٹّیاں آنکھوں پہ باندھے گھر سے نکلے ہیں
ہم ایسوں کو کوئی اندھا کنواں ہی لینے آئے گا
Printable View
یہ ہم جو پٹّیاں آنکھوں پہ باندھے گھر سے نکلے ہیں
ہم ایسوں کو کوئی اندھا کنواں ہی لینے آئے گا
یہ آدمی پہ حکومت تمہیں مبارک ہو
فقیر کیسے چھپے خوش لباس ہو کر بھی
چاند روشن ہے تو بس شب کی اذیت تک ہے
جانتا ہوں کہ ترا ساتھ ضرورت تک ہے
ایک کردار کہانی کے لیے میں بھی ہوں
اور صحرا بھی مری آخرت ہجرت تک ہے
تو نہیں ہوتا اگر کس نے یہاں رہنا تھا
دوست یہ گھر بھی فقط تیری سکونت تک ہے
انتہا کوئی تو ہو تیری طرف سے جاناں
منتظر تیرا کوئی شخص قیامت تک ہے
اپنی تنہائی سے پوچھوں گا اگر پوچھ سکا
کیا یہ سچ ہے کہ ہر اک دوست سہولت تک ہے
مر گئے لوگ یہاں سارے مگر اب بھی ندیم
کوئی زندہ ہے تو بس اس کی محبت تک ہے
اُسے بھیجیں بھی گر ہم کارزارِ مکر میں ماجدؔ
پلٹ کر ایلچی پہلی سی بِپتا ہی سنائے گا
٭٭٭
یونہی اس عشق میں اتنا گوارا کر لیا جائے
کسی پچھلی محبت کو دوبارہ کر لیا جائے