کوئی ہتھیار نہیں باعثِ آزار اطیبؔ
ایک انسان کو خطرہ ہے تو انسانوں سے
Printable View
کوئی ہتھیار نہیں باعثِ آزار اطیبؔ
ایک انسان کو خطرہ ہے تو انسانوں سے
سجائے رکھا ہے ایسا سراب آنکھوں میں
بکھیر تا ہے جو وہ خواب خواب آنکھوں میں
اُلجھ رہا ہے جو منظر بصارتوں سے مری
مزاجِ وقت کے رُخ کا نقاب آنکھوں میں
خزاں کے دور میں کانٹوں کی حکمرانی ہے
کھٹک رہا ہے جو کھلتا گلاب آنکھوں میں
محبتوں کا مری کیا ثبوت دوں تم کو
تمہارے واسطے لا یا ہوں آب آنکھوں میں
مقام اس سے حسیں اور کیا ہو میرے لئے
پناہ دیجئے مجھ کو جناب آنکھوں میں
آ جا کہ انتظار ِ نظر ہیں کبھی سے ہم
مایوس ہو نہ جائیں کہیں زندگی سے ہم
اے عکسِ زلفِ یار ہمیں تو پناہ دے
گھبرا کے آ گئے ہیں بڑی روشنی سے ہم
برسوں رہی ہے جن سے رہ و رسمِ دوستی
انکی نظر میں آج ہوئے اجنبی سے ہم
اس رونق ِ بہار کی محفل میں بیٹھ کر
کھاتے رہے فریب بڑی سادگی سے ہم