جانِ جاں آج یہ غضب ہو گا
خواب آنکھوں میں جاں بہ لب ہو گا
Printable View
جانِ جاں آج یہ غضب ہو گا
خواب آنکھوں میں جاں بہ لب ہو گا
سینہ سینہ ادب ادب ہوگا
میرے مولا یہ کام کب ہو گا
بے زبانی ہی اب زباں ہو گی
مجھ سے شکوہ گلہ نہ اب ہو گا
غیر کے ذکر پر مچے گی دھوم
اور مرا نام زیرِ لب ہو گا
یوں سرِ راہ روٹھنا ان کا
میری رسوائی کا سبب ہو گا
سر نگوں ہو گی آرزو اطیبؔ
یہ کرشمہ بھی دیکھ اب ہوگا
کبھی مئے خانے بگڑتے نہیں دیوانوں سے
اس سے کہ دو کہ نہ کھیلا کریں پیمانوں سے
زور دے اپنی بصارت پہ کہ تحریر کھُلے
اس کا چہرہ ہے مزّین کئی عنوانوں سے
حق کی آواز سماعت سے مری ٹکرانے
لوٹ آئے گی روایات کے زندانوں سے
مدتوں بعد تری یاد میں آنکھیں بھیگیں
آج ساحل نے ملاقات کی طوفانوں سے