زمانہ گزرا ہے خوشیوں کا ساتھ چھوڑے ہوئے
مرے مزاج کو اب غم شناس رہنے دو
Printable View
زمانہ گزرا ہے خوشیوں کا ساتھ چھوڑے ہوئے
مرے مزاج کو اب غم شناس رہنے دو
عمل کی رُت میں پنپتی ہیں ٹہنیاں حق کی
مِلاؤ سچ سے نگاہیں، قیاس رہنے دو
وہ راگ خاموش ہو چکا ہے سنانے والا بھی سو چکا ہے
لرز رہے ہیں مگر ابھی تک شکستہ بربط کے تار دیکھو
وہ خواب کو بھی حقیقت سمجھ کے جیتے ہیں
اسی میں خوش ہیں تو یہ التباس رہنے دو
ملا کے ہاتھ شیاطیں سے دیکھتے ہو مجھے
انانیت کو تم اپنے ہی پاس رہنے دو
مجھے نہ کھینچو خوشی کے حصار میں اطیبؔ
اداس رہنا ہے مجھ کو اداس رہنے دو
کیسے کر پاؤ گے برباد بیابانوں کو
اِن سے ملتا ہے سکوں قیس سے دیوانوں کو
جتنا تڑپاتے ہو ترساتے ہو دیوانوں کو
زندگی اور ملی جاتی ہے مستانوں کو
نقلی پھولوں سے سجا رکھا ہے گلدانوں کو
پھر سے آباد کرے کوئی گلستانوں کو
اِن سے وابستہ روایت ہے جنوں کی اطیبؔ
رکھو آباد تصور کے صنم خانوں کو