چاند جس آسمان میں ڈوبا
کب اسی آسمان سے نکلا
Printable View
چاند جس آسمان میں ڈوبا
کب اسی آسمان سے نکلا
یہ گہر جس کو آفتاب کہیں
کس اندھیرے کی کان سے نکلا
شکر ہے اس نے بے وفائی کی
میں کڑے امتحان سے نکلا
بدلے میں پیار کے مجھے رسوائی دے گیا
صدمات کے ہجوم میں تنہائی دے گیا
اٹھتا ہے دل میں شور سا آٹھوں پہر مرے
زخموں کو کیسی قوتِ گویائی دے گیا
غم، درد، کرب، آہ، فغاں، اشک ، بے کلی
کیا کیا عنایتیں مجھے ہر جائی دے گیا
مجھ کو دیا تھا درسِ وفا جس نے پیار سے
آنکھوں کو انتظار کی انگنائی دے گیا
ارماں جگا کے اور نئے وعدے پہ ٹال کے
لمسِ لطیف دے گیا، انگڑائی دے گیا
آنکھوں سے میری نیند کی دنیا چرا کے وہ
اطیبؔ شکستِ خواب کی سچائی دے گیا
گماں کے تن پہ یقیں کا لباس رہنے دو
کہ میرے ہاتھ میں خالی گلاس رہنے دو