گھروں سے لے کے گھروں تک انا و نخوت کی
اُڑی وہ گرد کہ چہرے نکھار بھُول گئے
Printable View
گھروں سے لے کے گھروں تک انا و نخوت کی
اُڑی وہ گرد کہ چہرے نکھار بھُول گئے
شہر تو پہلے بھی لوگوں سے بھرا رہتا تھا
ہوگا ویران بہت ایک کھنڈر میرے بعد
ہوائے تُند نے جھٹکے کچھ اس طرح کے دئیے
ہمارا کس پہ تھا کیا اختیار؟ بھُول گئے
اسے کہنا کہ یہاں تیز ہوا چلتی ہے
تتلیاں لے کے نہ اب آئے اِدھر میرے بعد
مر گیا ہوں میں قیامت تو نہیں آئی کوئی
جانے کیا سوچتے ہیں زید بکر میرے بعد
جنہیں گماں تھا نمو اُن تلک بھی پہنچے گی
وہ کھیت مرحلۂ انتظار، بھُول گئے
نہ جان پائے کہ مچلے گا، پھُول چہروں میں
یہ ہم کہ خوئے دلِ نابکار، بھُول گئے
قدم کدھر کو ،ارادے کدھر کے تھے اُن کے
یہ بات رن میں سبھی شہسوار، بھُول گئے
تم مرے ساتھ مرے لفظ بھی دفنا ہی دو
یہ نہ ہو بول اٹھے میرا ہنر میرے بعد
فضائے تخت ثمر بار دیکھ کر ماجدؔ
جو روگ شہر کو تھے، شہریار، بھُول گئے