اب آپ رہِ دل جو کشادہ نہیں رکھتے
ہم بھی سفرِ جاں کا ارادہ نہیں رکھتے
Printable View
اب آپ رہِ دل جو کشادہ نہیں رکھتے
ہم بھی سفرِ جاں کا ارادہ نہیں رکھتے
اشکوں سے چراغإں ہے شبِ زیست، سو وہ بھی
کوتاہیِ مژگاں سے زیادہ نہیں رکھتے
یہ گردِ رہِ شوق ہی جم جائے بدن پر
رسوا ہیں کہ ہم کوئی لبادہ نہیں رکھتے
ہر گام پہ جگنو سا چمکتا ہے جو دل میں
ہم اس کے سوا مشعلِ جادہ نہیں رکھتے
سرخی نہیں پھولوں کی تو زخموں کی شفق ہے
دامانِ طلب ہم کبھی سادہ نہیں رکھتے
آگ کے درمیان سے نکلا
میں بھی کس امتحان سے نکلا
جب بھی نکلا ستارۂ امید
کہر کے درمیان سے نکلا
پھر ہوا سے سلگ اٹھے پتے
پھر دھواں گلستان سے نکلا
چاندنی جھانکتی ہے گلیوں میں
کوئی سایہ مکان سے نکلا
ایک شعلہ پھر اک دھوئیں کی لکیر
اور کیا خاکدان سے نکلا