منتظر جس کی یہ آنکھیں ہیں کئی برسوں سے
اور وہ چاند بھی اس پار اگر مر جائے
Printable View
منتظر جس کی یہ آنکھیں ہیں کئی برسوں سے
اور وہ چاند بھی اس پار اگر مر جائے
زمیں کے آخری حصے پہ میں ٹھہرا ہوا ہوں
تمہارے عشق میں جانے کہاں پہنچا ہوا ہوں
بیاضِ درد کی تزئین کے لئے ماجدؔ
وہ حرف رہ گئے جو، اَن کہے تلاش کروں
گزارا تھا تمہارے شہر کی گلیوں میں بچپن
تمہارے شہر کی گلیوں میں ہی تنہا ہوا ہوں
نہ جانے کس گھڑی نام و نشاں مٹ جائے میرا
کھنڈر کی آخری دیوار پہ لکھا ہوا ہوں
نصابِ ربط کے نقش و نگار بھُول گئے
گلاب رکھ کے کتابوں میں یار، بھُول گئے
تم اپنے واسطے کچھ شعر اچھے یاد کر لو
میں ہوں اک درد کا نغمہ بہت گایا ہوا ہوں
تمہارے شہر کے پتھر تو میرے آشنا ہیں
ندیم ان کو تم اتنا کہہ دو میں آیا ہوا ہوں
جھیل اور جھیل کنارے کا شجر میرے بعد
ہوگا چپ چاپ بہت چاند اُدھر میرے بعد
کون رہتا ہے یہاں میرے علاوہ گھر میں
لوٹ آتا ہے جو ہر شام مگر میرے بعد