جس میں مجھ کو ارادے جلانے کے ہیں
اُس اگن کو بھی دے کر ہوا دیکھیے
Printable View
جس میں مجھ کو ارادے جلانے کے ہیں
اُس اگن کو بھی دے کر ہوا دیکھیے
میں نے کرنی تھی جاں، نذر کی ہے تمہیں
لعل ہے جو پہنچ میں گنوا دیکھیے
میرے حق میں ہیں جن جن کی بیداریاں
سب کے سب ایسے جذبے سُلا دیکھیے
جس سے شہرِ رقیباں میں ہلچل مچے
حشر ایسا بھی کوئی اٹھا دیکھیے
سن ذرا اے صنم! گنگناتی ہے کیا، رقص کرتی ہوا
لب پہ لانے لگی پھر سخن پیار کا، رقص کرتی ہوا
چھُو کے تیر ا بدن تیری لہراتی زلفیں ترا پیرہن
تجھ سے کہتی ہے کیا کیا مرا مدّعا ،رقص کرتی ہوا
ساتھ لاتی ہے کیا کیا تم ایسے نہ گھونگھٹ بناتی ہوئی
تیرا رنگِ حیا تیرا رنگِ قبا رقص کرتی ہوا
غیر پر اتنا اعتبار نہ کر
یہ ستم مجھ پہ بار بار نہ کر
گل پریشاں ہُوا مہک کھو کر
حالِ دل تو بھی آشکار نہ کر
میں گیا وقت جا چکا ہوں ،مرے
لوٹ آنے کا انتظار نہ کر
ہم کہ ہیں چاہتوں کے متوالے
ہم سے اغماض اے نگار! نہ کر
تو کسی ایک ہی کا ہو کر رہ
خُو کوئی اور اختیار نہ کر
قوسیں مہکتے لمس کی رَس گھولتی رعنائیاں
ہاتھوں سے دُور ہونے لگیں اُس جسم کی گولائیاں
شاخوں سے جھڑتے پھُول سی، سر پر امڈتی دھول سی
حق میں ہمارے ہو چلیں، کیا کیا کرم فرمائیاں
ہر کُنج سے چھلکا کئے کیا کیا خزینے لطف کے
لپٹیں تھیں جیسے مشک کی اُس حسن کی پہنائیاں
ہم کو اکیلا چھوڑ کر، جب سے وہ چنچل جا چکا
ہر سمت اگنے لگ پڑیں، ڈستی ہوئی تنہائیاں
کیوں رُلاتی نہ تمہیں پیار کہانی میری
اور پھر وہ، کہ سنی تم نے زبانی میری
آنچ سی دینے لگا ہجر کا صحرا جب سے
اور مرجھانے لگی عمر سہانی میری
طاقِنسیاں میں کہیں رکھ کے اُسے بھول گئے
انگلیوں میں جو سجائی تھی نشانی میری
برقِ فرقت کی گرج خوف دلاتی ہے یہی
راکھ کا ڈھیر نہ ہو جائے جوانی میری
مجھ کو دہرانے پہ مجبور نہ کرنا جاناں !
جاں سے جانے کی ہے جو ریت پرانی میری
کبھی ابر میں ،کبھی چاند میں، کبھی پھُول میں
سرِگردش مہ و سال ہے تجھے دیکھنا
رگ و پے میں گرچہ ہے چاشنی ترے قرب کی
تو مہک ہے کارِ محال ہے تجھے دیکھنا
کوئی عید بھی ہو سعید ہے ، تری دید کی
پئے چشم، کسبِکمال ہے تجھے دیکھنا
تجھے کیوں نہ میں یہ کہوں صنم کہ سرِ نظر
کسی اور رُت کا جمال ہے تجھے دیکھنا
منظروں سپنوں ارادوں کی قبائیں شوخ ہیں
رشک میں اُس شوخ کے اب کی ادائیں شوخ ہیں
اُس کے دم سے سخت واماندہ ہیں خدشوں کے عقاب
اور سکون و امن کی سب فاختائیں شوخ ہیں
اُس کے ہونٹوں پر دمکتی مسکراہٹ دیکھ کر
آسماں پر ابر چنچل ہیں، ہوائیں شوخ ہیں
اُس بدن پر دیکھ کر پیہم مہکتا پیرہن
گل بہ گل بے نام خوشبو کی ردائیں شوخ ہیں
ہم سخن ہونے کو اُس ہر دم سراپا ناز سے
باغ میں کلیوں کے کھِلنے کی صدائیں شوخ ہیں
موسمِ گل کے رنگ تو آنے جانے ہیں
ہنس ہنس کر تم ہی نے پھُول کھلانے ہیں
ہم نے پانے کو تیرے اقرار کی نم
کونجوں جیسے حرف زباں پر لانے ہیں
خوشبو کے مرغولے ،رنگت پھُولوں کی
بھنوروں کے ایسے ہی ٹھور ٹھکانے ہیں
تجھ سے ملنا اور پھر تیرا ہو جانا
ایک حقیقت ،باقی سب افسانے ہیں
قرب ترے کی، چھاؤں میں جا رُکنے کو
دشت کی آنچ میں ہم نے پنکھ جلانے ہیں
ندیّوں میں آسمانی رنگ بھر جانے لگے
بِن ترے کیا کیا حسیں موسم گزر جانے لگے
کھِلکھلاہٹ بھی وہی اور تمتماہٹ بھی وہی
پھُول تیرے عارضوں جیسے نکھر جانے لگے
تیری جانب تتلیوں جیسی لئے بے تابیاں
ہو کے پہلے سے زیادہ بارور جانے لگے
تشنۂ حسن اِک نظر، اور اِک دلِ ذی حوصلہ
لے کے ہم بھی ساتھ کیا رختِسفر جانے لگے
تو نہ ہو رنج آشنا جانا ں! ہمارے قرب سے
حق میں تیرے دیکھ !ہم کیا کیا نہ ڈر جانے لگے
٭٭٭