اک سوال اور اک سوال کے بعد
انتہا حیرتوں کی حیرت ہے
Printable View
اک سوال اور اک سوال کے بعد
انتہا حیرتوں کی حیرت ہے
چڑھا ہوا تھا وہ نشہ کے کم نہ ہوتا تھا
ہزار بار ابھرتا تھا ڈوبتا تھا میں
آگے کیا ہو یہ سخن آج تو یوں ہے جیسے
اپنے نام اپنا ہی لکھا ہوا مکتوب آئے
پھول تو سہم گئے دست کرم سے دمِ صبح
گنگناتی ہوئی آوارہ صبا کیوں چپ ہے
آنکھ مظلوم کی خدا کی طرف
ظلم اک ظلمتِ کثیر کے ساتھ
بتلاؤ تو یہ آب و ہوا آئی کہاں سے
کہنے کو تو تم لہجہ و تاثیر ہوئے سب
دیکھا مجھے تو طبع رواں ہو گئی میری
وہ مُسکرا دیا تو میں شاعر ادیب تھا
جیسے تجدید تعلق کی بھی رُت ہو کوئی
زخم بھرتے ہیں تو احباب بھی آ جاتے ہیں
سچ ہوں تو مجھے امر بنا دے
جھوٹا ہوں تو نقش سب مٹا دے
ہم تو جہاں والوں کی خاطر جان سے گزرے جاتے ہیں
پھر ستم کیا ہے کہ ہمیں پر تنگ ہوا ہے دہر بہت