یہ جان لینا وہاں بھی کوئی کسی کی آمد کا منتظر تھا
کسی مکاں کے جو بام و در پر بجھے دیوں کی قطار دیکھو
Printable View
یہ جان لینا وہاں بھی کوئی کسی کی آمد کا منتظر تھا
کسی مکاں کے جو بام و در پر بجھے دیوں کی قطار دیکھو
ملا نہیں اذان رقص جن کو ،کبھی تو وہ بھی شرار دیکھو
اگر ہو اہلِ نگاہ یارو، چٹان کے آر پار دیکھو
اگر چہ بے خانماں ہیں لیکن ہمارا ملنا نہیں ہے مشکل
اُدھر ہی صحرا میں دوڑ پڑنا، جدھر سے اٹھتا غبار دیکھو
عجب نہیں ہے پہاڑیوں پر شفق کا سونا پگھل رہا ہو
مکانِ تیرہ کے روزنوں میں یہ نور کے آبشار دیکھو
جو ابر ِ رحمت سے ہو نہ پایا کیا ہے وہ کام آندھیوں نے
نہیں ہے خار و گیاہ باقی، چمک اٹھا رہگزر دیکھو
اک آہ بھرنا شکیبؔ ہم سے خزاں نصیبوں کو یاد کر کے
کلائیوں میں جو ٹہنیوں کی مہکتی کلیوں کے ہار دیکھو
منظر تھا اک اجاڑ نگاہوں کے سامنے
کیا کیا نہ رنگ بھر دئیے افسوس شام نے
چہرے سے اجنبی تھا وہ میرے لئے مگر
سب راز اس کے کہہ دئے طرز خرام نے
نکلا نہیں ہوں آج بھی اپنے حصار سے
حدِّ نگاہ آج بھی ہے میرے سامنے
اک سانس کی طناب جو ٹوٹی تو اے شکیبؔ
دوڑے ہیں لوگ جسم کے خیمے کو تھامنے