سوچو تو سلوٹوں سے بھری ہے تمام روح
دیکھو تو اک شکن بھی نہیں ہے لباس میں
Printable View
سوچو تو سلوٹوں سے بھری ہے تمام روح
دیکھو تو اک شکن بھی نہیں ہے لباس میں
چمکے نہیں نظر میں ابھی نقش دور کے
مصروف ہوں ابھی عملِ انعکاس میں
صحرا کی بود باش ہے اچھی نہ کیوں لگے
سوکھی ہوئی گلاب کی ٹہنی گلاس میں
دھوکے سے اس حسیں کو اگر چوم بھی لیا
پاؤ گے دل کا زہر لبوں کی مٹھاس میں
تارے ہیں نہ ماہتاب یارو
کچھ اس کا بھی سدِّ باب یارو
آنکھوں میں چتائیں جل رہی ہیں
ہونٹوں پہ ہے آب آب یارو
رہبر ہی نہیں ہے ساتھ اپنے
رہزن بھی ہے ہم رکاب یارو
شعلے سے جہاں لپک رہے ہیں
برسے گا وہیں سحاب یارو
وہی جھکی ہوئی بیلیں، وہی دریچا تھا
مگر وہ پھول سا چہرہ نظر نہ آتا تھا
میں لوٹ آیا ہوں خاموشیوں کے صحرا سے
وہاں بھی تیری صدا کا غبار پھیلا تھا