کن اندھیروں میں کھو گئی ہے سحر
چاند تاروں پہ مار کر شب خوں
Printable View
کن اندھیروں میں کھو گئی ہے سحر
چاند تاروں پہ مار کر شب خوں
اب تو خونِ جگر بھی ختم ہوا
میں کہاں تک خلا میں رنگ بھروں
جی میں آتا ہے اے رہِ ظلمت
کہکشاں کو مروڑ کر رکھ دوں
کہاں رکیں گے مسافر نئے زمانوں کے
بدل رہا ہے جنوں زاوئے اُڑانوں کے
یہ دل کا زخم ہے اک روز بھر ہی جائے گا
شگاف پُر نہیں ہوتے فقط چٹانوں کے
چھلک چھلک کے بڑھا میری سمت نیند کا جام
پگھل پگھل کے گرے قفل قید خانوں کے
ہوا کے دشت میں تنہائی کا گزر ہی نہیں
مرے رفیق ہیں مُطرِب گئے زمانوں کے
کبھی ہمارے نقوشِ قدم کو ترسیں گے
وہی جو آج ستارے ہیں آسمانوں کے
کبھی ہمارے نقوشِ قدم کو ترسیں گے
وہی جو آج ستارے ہیں آسمانوں کے
میں شاخ سے اڑا تھا ستاروں کی آس میں
مرجھا کے آ گرا ہوں مگر سرد گھاس میں