وہ اگر غیر نہ سمجھے تو کوئی بات کریں
دلِ ناداں سے بہت سی ہیں شکایات ہمیں
Printable View
وہ اگر غیر نہ سمجھے تو کوئی بات کریں
دلِ ناداں سے بہت سی ہیں شکایات ہمیں
جس قدر خود کو وہ چھپاتے ہیں
لوگ گرویدہ ہوتے جاتے ہیں
رنگ و مستی کے جزیروں میں لیے پھرتے ہیں
اس کی پائل سے چُرائے ہوئے نغمات ہمیں
جو بھی ہمدرد بن کے آتے ہیں
غم کا احساس ہی جگاتے ہیں
خود کو بدنام کر رہا ہوں میں
ان پہ الزام آئے جاتے ہیں
اجنبی بن کے جی رہا ہوں میں
لوگ مانوس ہوتے جاتے ہیں
آئینۂ جذباتِ نہاں ہیں تری آنکھیں
اک کار گہِ شیشہ گراں ہیں تری آنکھیں
سر چشمۂ افکار جواں ہیں تری آنکھیں
تابندہ خیالات کی جاں ہیں تری آنکھیں
اندازِ خموشی میں ہے گفتار کا پہلو
گویا نہ سہی، چپ بھی کہاں ہیں تری آنکھیں
جاؤں گا کہاں توڑ کے زنجیرِ وفا کو
ہر سو مری جانب نگراں ہیں تری آنکھیں