ہو گئے قلاش جب سے آس کی دولت لٹی
پاس اپنے، اور تو کوئی بھی سرمایہ نہ تھا
Printable View
ہو گئے قلاش جب سے آس کی دولت لٹی
پاس اپنے، اور تو کوئی بھی سرمایہ نہ تھا
وہ پیمبر ہو کہ عاشق، قتل گاہ شوق میں
تاج کانٹوں کا کسے دنیا نے پہنایا نہ تھا
صرف خوشبو کی کمی تھی غور کے قابل قتیل
ورنہ گلشن میں کوئی بھی پھول مرجھایا نہ تھا
رابطہ لاکھ سہی قافلہ سالار کے ساتھ
ہم کو چلنا ہے مگر وقت کی رفتار کے ساتھ
غم لکھے رہتے ہیں ہر آن خوشی کے پیچھے
دشمنی دھوپ کی ہے سایۂ دیوار کے ساتھ
کس طرح اپنی محبت کی میں تکمیل کروں
غمِ ہستی بھی تو شامل ہے غم یار کے ساتھ
لفظ چنتا ہوں تو مفہوم بدل جاتا ہے
اک نہ اک خوف بھی ہے جرأتِ اظہار کے ساتھ
بخش دے مجھ کو بھی اعزاز مسیح و منصور
میں نے بھی پیار کیا ہے رسن و دار کے ساتھ
دشمنی مجھ سے کئے جا مگر اپنا بن کر
جان لے لے مری، صیاد! مگر پیار کے ساتھ
دو گھڑی آؤ مل آئیں کسی غالب سے قتیلؔ
حضرت ذوقؔ تو وابستہ ہیں دربار کے ساتھ
تہہ میں جو رہ گئے وہ موتی نکالئے
طغیانیوں کا ہاتھ سمندر میں ڈالئے
اپنی حدوں میں رہئے کہ رہ جائے آبرو
اوپر جو دیکھنا ہے تو پگڑی سنبھالئے
خوشبو تو مدتوں کی زمیں دوز ہو چکی
اب صرف پتیوں کو ہوا میں اچھالئے
صدیوں کا فرق پڑتا ہے لمحوں کے پھیر میں
جو غم ہے آج کا اسے کل پر نہ ٹالئے
آیا ہی تھا ابھی مرے لب پہ وفا کا نام
کچھ دوستوں نے ہاتھ میں پتھر اٹھا لئے
کہہ دو صلیب شب سے کہ اپنی منائے خیر
ہم نے تو پھر چراغ سروں کے جلا لئے
دنیا کی نفرتیں مجھے قلاش کر گئیں
اک پیار کی نظر مرے کاسے میں ڈالئے
محسوس ہو رہا ہے کچھ ایسا مجھے قتیلؔ
نیندوں نے جیسے آج کی شب پر لگا لئے
منظر سمیٹ لائے ہیں جو تیرے گاؤں کے
نیندیں چرا رہے ہیں وہ جھونکے ہواؤں کے
تیری گلی سے چاند زیادہ حسیں نہیں
کہتے سنے گئے ہیں مسافر خلاؤں کے
پل بھر کو تیری یاد میں دھڑکا تھا دل مرا
اب دور تک بھنور سے پڑے ہیں صداؤں کے
داد سفر ملی ہے کسے راہ شوق میں
ہم نے مٹا دئیے ہیں نشاں اپنے پاؤں کے
جب تک نہ کوئی آس تھی، یہ پیاس بھی نہ تھی
بے چین کر گئے ہمیں سائے گھٹاؤں کے
ہم نے لیا ہے جب بھی کسی راہزن کا نام
چہرے اتر اتر گئے کچھ رہنماؤں کے
اُگلے گا آفتاب کچھ ایسی بلا کی دھوپ
رہ جائیں گے زمین پہ کچھ داغ چھاؤں کے
ہر طرف سطوت ارژنگ دکھائی دے گی
رنگ برسیں گے زمیں دنگ دکھائی دے گی
بارش خون شہیداں سے وہ آئے گی بہار
ساری دھرتی ہمیں گلرنگ دکھائی دے گی
پربتوں سے نکل آئیں گے تھرکتے پیکر
نغمہ زن، خامشی سنگ دکھائی دے گی
راز میں رہ نہ سکے گی کوئی اظہار کی لے
اک نہ اک صورت ماہنگ دکھائی دے گی
سوچ کو جرات پرواز تو مل لینے دو
یہ زمیں اور ہمیں تنگ دکھائی دے گی
تاج کانٹوں کا سہی ایک نہ ایک دن لیکن
عاشقی زینتِ اور نگ دکھائی دے گی
جب بھی ہر کھے گا کوئی پیار کے معیار قتیل
ساری دنیا مرے پاسنگ دکھائی دے گی
نامہ بر اپنا ہواؤں کو بنانے والے
اب نہ آئیں گے پلٹ کر کبھی جانے والے
کیا ملے گا تجھے بکھرے ہوئے خوابوں کے سوا
ریت پر چاند کی تصویر بنانے والے
سب نے پہنا تھا بڑے شوق سے کاغذ کا لباس
جس قدر لوگ تھے بارش میں نہانے والے
مر گئے ہم تو یہ کتبے پہ لکھا جائے گا
سو گئے آپ زمانے کو جگانے والے
در و دیوار پہ حسرت سی برستی ہے قتیل
جانے کس دیس گئے پیار نبھانے والے
ہر بے زباں کو شعلہ نوا کہہ لیا کرو
یارو سکوت ہی کو صدا کہہ لیا کرو
خود کو فریب دو کہ نہ ہو تلخ زندگی
ہر سنگ دل کو جانِ وفا کہہ لیا کرو
گر چاہتے ہو خوش رہیں کچھ بندگانِ خاص
جتنے صنم ہیں ان کو خدا کہہ لیا کرو