کچھ ہو گیا ہے دھوپ سے خاکستری بدن
کچھ جم گیا ہے راہ کا مجھ پر غبار بھی
Printable View
کچھ ہو گیا ہے دھوپ سے خاکستری بدن
کچھ جم گیا ہے راہ کا مجھ پر غبار بھی
اے دوست، پہلے قرب کا نشّہ عجیب تھا
میں سُن سکا نہ اپنے بدن کی پُکار بھی
رستہ بھی واپسی کا کہیں بن میں کھو گیا
اوجھل ہوئی نگاہ سے ہرنوں کی ڈار بھی
کچھ عقل بھی ہے باعثِ توقیر اے شکیبؔ
کچھ آ گئے ہیں بالوں میں چاندی کے تار بھی
پردۂ شب کی اوٹ میں زہرہ جمال کھو گئے
دل کا کنول بجھا تو شہر تیرہ و تار ہو گئے
ایک ہمیں ہی اے سحر نیند نہ آئی رات بھر
زانوئے شب پہ رکھ کر سر، سارے چراغ سو گئے
راہ میں تھے ببول بھی رودِ شرر بھی دھول بھی
جانا ہمیں ضرور تھا گل کے طواف کو گئے
دیدہ ورو بتائیں کیا تم کو یقیں نہ آئے گا
چہرے تھے جن کے چاند سے سینے میں داغ بو گئے
اہلِ جنوں کے دل شکیبؔ نرم تھے موم کی طرح
تیشۂ یاس جب چلا تودۂ سنگ ہو گئے
مرجھا کے کالی جھیل میں گرتے ہوئے بھی دیکھ
سورج ہوں، میرا رنگ مگر دن ڈھلے بھی دیکھ