ریزہ ریزہ بکھرتے گئے، جتنے اوراق تھے امن کے
فاختہ پھڑپھڑ اتی ہوئی مشت بھر آنگنوں میں ملی
Printable View
ریزہ ریزہ بکھرتے گئے، جتنے اوراق تھے امن کے
فاختہ پھڑپھڑ اتی ہوئی مشت بھر آنگنوں میں ملی
مکر و فن کو نہ جس کی عروسی پھبن اک نظر بھا سکی
مانگ جس کی اجاڑی گئی وہ سحر،آنگنوں میں ملی
نیّتِ بد کہ میراث اہلِ ریا تھی، سکوں لُوٹنے
خرمنِ آرزو میں مثالِ شرر آنگنوں میں ملی
پچھلی رت کے دباؤ سے آنسو ہوا تک سے رسنے لگے
شکل احوال کی صورتِ چشمِ تر آنگنوں میں ملی
پو پھٹے پر بھی ماجدؔ نہ لے نام ٹلنے کا، آسیب سی
دہشتِ جبر جو شب کے پچھلے پہر آنگنوں میں ملی
کُتا آنکھیں کب دکھلاتا ہے کب دُم لہراتا ہے
سِفلوں سے پالا پڑتا ہے راز یہ تب کھُل پاتا ہے
خلق سے بھی کھنچتا ہے آئینے سے بھی کتراتا ہے
جس کے دل میں چور ہو خود سے بھی کم آنکھ ملاتا
ہے
جویائے تعبیر رہے وہ خواب میں قامتِ بالا کی
بَونے کی یہ خُو ہے سوتے میں بھی وہ اِٹھلاتا ہے
اِس سے ہٹ کر کم کم ہو، ہوتا ہے اکثر ایسا ہی
باپ نے جو جَھک ماری ہو بیٹا بھی اسے دُہراتا ہے
جس کوتاہ نظر کو بھی احساس ہو کمتر ہونے کا
برتر پر چھا جانے کو وہ اور ہی طیش دِکھاتا ہے