کم نہیں رات کے صحرا سے مرے دل کی فضا
اور آکاش کے تاروں سے فزوں تر یادیں
Printable View
کم نہیں رات کے صحرا سے مرے دل کی فضا
اور آکاش کے تاروں سے فزوں تر یادیں
مشعلِ غم نہ بجھاؤ کہ شکیبؔ اس کے بغیر
راستہ گھر کا بھلا دیتی ہیں اکثر یادیں
تیز آندھیوں میں اڑتے پر وبال کی طرح
ہر شے گزشتنی ہے مہ و سال کی طرح
کیو ں کر کہوں کہ در پئےآزار ہے وہی
جو آسماں ہے سر پہ مرے ڈھال کی طرح
یوں بے سبب تو کوئی انہیں پوجتا نہیں
کچھ تو ہے پتھروں میں خدوخال کی طرح
کیا کچھ کیا نہ خود کو چھپانے کے واسطے
عریانیوں کو اوڑھ لیا شال کی طرح
اب تک مرا زمین سے رشتہ ہے استوار
رہنِ ستم ہوں سبزۂ پامال کی طرح
میں خود ہی جلوہ ریز ہوں، خود ہی نگاہِ شوق
شفاف پانیوں پہ جھکی ڈال کی طرح
بے نغمہ و صدا ہے وہ بت خانۂ خیال
کرتے تھے گفتگو جہاں پتھر کے ہونٹ بھی
وہ پھر رہے ہیں زخم بہ پا آج دشت دشت
قدموں میں جن کے شاخِ گلِ تر جھکی رہی