سائے میں جان پڑ گئی دیکھا جو غور سے
مخصوص یہ کمال ہے اہلِ نظر کے ساتھ
Printable View
سائے میں جان پڑ گئی دیکھا جو غور سے
مخصوص یہ کمال ہے اہلِ نظر کے ساتھ
اک دن ملا تھا بام پہ سورج کہیں جسے
الجھے ہیں اب بھی دھوپ کے ڈورے کگر کےساتھ
اک یاد ہے کہ دامنِ دل چھوڑتی نہیں
اک بیل ہے کہ لپٹی ہوئی ہے شجر کے ساتھ
میری طرح یہ صبح بھی فنکار ہے شکیبؔ
لکھتی ہے آسماں پہ غزل آب زر کے ساتھ
دستکیں دیتی ہیں شب کو درِ دل پر یادیں
کچھ نہیں ہے مگر اس گھر کا مقدّر یادیں
اس مرحلے کو موت بھی کہتے ہیں دوستو
اک پل میں ٹوٹ جائیں جہاں عمر بھر کے ساتھ
ڈھونڈھتی ہیں تری مہکی ہوئی زلفوں کی بہار
چاندنی رات کے زینے سے اتر کر یادیں
عشرتِ رفتہ کو آواز دیا کرتی ہیں
ہر نئے لمحے کی دہلیز پہ جا کر یادیں
رنگ بھرتی ہیں خلاؤں میں ہیولے کیا کیا
پیش کرتی ہیں عجب خواب کا منظر یادیں
نہ کسی زلف کا عنبر، نہ گلوں کی خوشبو
کر گئی ہیں مری سانسوں کو معطّر یادیں