کس درجہ پر سکون تھی وہ فاختہ جسے
گھیرے میں لے چکا تھا تناؤ کمان کا
Printable View
کس درجہ پر سکون تھی وہ فاختہ جسے
گھیرے میں لے چکا تھا تناؤ کمان کا
کس خوش دَہن کا نام لیا اِس نے بعدِ عمر
ٹھہرا ہے اور ذائقہ ماجد زبان کا
٭٭٭
ریت پہ طوفاں کی تحریروں جیسے ہیں
سارے یقیں پانی پہ لکیروں جیسے ہیں
اِک اِک شخص حنوط ہُوا ہے حیرت سے
جتنے چہرے ہیں ، تصویروں جیسے ہیں
از خود ہی پڑ جائیں نام ہمارے یہ
درد کے سب خّطے ، جاگیروں جیسے ہیں
پاس ہمارے جو بھی جتن ہیں بچاؤ کے
ڈوبنے والوں کی تدبیروں جیسے ہیں
پسپائی کی رُت میں ہونٹ کمانوں پر
ماجد جتنے بول ہیں ، تیروں جیسے ہیں
زورآور کو ہم وجہِ آزار کہیں، کیا کہتے ہو
دشت میں رہ کر چیتے کو خونخوار کہیں، کیا کہتے ہو
بِن شعلوں کے جسموں جسموں جس کی آنچ سمائی ہے
بے آثار ہے جو، اُس نار کو نار کہیں، کیا کہتے ہو
بہرِ نمونہ کھال جہاں ادھڑی ہے کچھ کمزوروں کی
اُس دربار کو جَور کا ہم تہوار کہیں،کیا کہتے ہو