تُو بھی ایسی کوئی فرمائش کبھی ہونٹوں پہ لا
دیکھ بھنورا کس طرح پھولوں کو سہلانے لگا
Printable View
تُو بھی ایسی کوئی فرمائش کبھی ہونٹوں پہ لا
دیکھ بھنورا کس طرح پھولوں کو سہلانے لگا
تُو بھی ایسے میں مرے آئینۂ دل میں اتر
چندرماں بھی دیکھ پھر جھیلوں میں لہرانے لگا
میں بھلا کب اہل، تجھ سے یہ شرف پانے کا ہوں
تُو بھلا کیوں حسن کا ہُن ،مجھ پہ برسانے لگا
عندلیبوں کو گلاب اور تُو مجھے مل جائے گا
موسم گل، دیکھ! کیا افواہ پھیلانے لگا
باغ پر وقت کیسا یہ آنے لگا سوچنا چاہیے
پھول کیوں شاخ سے ٹوٹ جانے لگا سوچنا چاہیے
وہ کہ جو جھانکتا تھا بہاروں سے بھی چاند تاروں سے بھی
جذبۂ دل وہ کیسے ٹھکانے لگا سوچنا چاہیے
وہ کہ جو بندشوں سے بھی دبتا نہ تھا جو سنبھلتا نہ تھا
پھر وہی کیوں نظر میں سمانے لگا سوچنا چاہیے
بن کے نشہ سا چھاؤ گھٹا بھی ہے مے بھی ہے
جاناں! قریب آؤ گھٹا بھی ہے مے بھی ہے
آنکھیں ملیں تو مستیاں پھیلیں چہار سو
موسم کو شہ دلاؤ گھٹا بھی ہے مے بھی ہے
جتنی بھی چھا چکی ہیں بدن پر رُتیں اُجاڑ
اُن پر نکھار لاؤ گھٹا بھی ہے مے بھی ہے
رہ جائے بُجھ کے قلب و نظر میں ہے جو بھی پیاس
گاؤ ملہار گاؤ ،گھٹا بھی ہے مے بھی ہے
بندش سی کیا یہ دِید پہ، باہم ملن پہ ہے
جادو کوئی جگاؤ گھٹا بھی ہے مے بھی ہے
بھرم مرا نہ گنواتے اگر بُرا کیا تھا
بہ بزمِ غیر نہ آتے اگر بُرا کیا تھا
وہی جو تیر سی میرے بدن کو چیر گئی
وہ بات منہ پہ نہ لاتے اگر بُرا کیا تھا
تمہارے روٹھ کے جانے سے جو ہوا برپا
وہ حشر تم نہ اٹھاتے اگر بُرا کیا تھا
تمہارے ہجرِ مسلسل سے جو الاؤ بنی
اس آگ میں نہ جلاتے اگر بُرا کیا تھا
تم ہی تو تھے جو مرا دم تھے، دل کی دھڑکن تھے
سفر میں ساتھ نبھاتے اگر بُرا کیا تھا
تو کہ گل ہے نہ بھنوروں سا ہو بدگماں دیکھ ایسا نہ کر
حسن کے شہ نشیں، لطف کے آسماں دیکھ ایسا نہ کر
رکھ نہ ہم سے چھپا کر طراوت لب و چشم و رخسار کی
لے کے جائیں کہاں ہم یہ سُوکھی زباں دیکھ ایسا نہ کر
طوف سے سرو قامت کے کب تک ہمیں باز رکھے گا تو
دور رکھتا ہے پھُولوں سے کیوں تتلیاں دیکھ ایسا نہ کر
وہ ہمِیں ہیں جو اُتریں گے جاناں !ترے اوجِ معیار پر
کاوشِ شوق ہونے نہ دے رائیگاں دیکھ ایسا نہ کر
جب کبھی میری جانب ترا رُخ پھرا پھُول کھلنے لگے
دل کا ہر خواب سورج مکھی بن گیا پھُول کھلنے لگے
چاپ میں تیرے قدموں کی پیغام تھا جانے کس کشف کا
تیری آمد کا جب بھی چلا ہے پتا پھُول کھلنے لگے
دیر اتنی تھی مائل ہوئی جب صبا تیرے الطاف کی
صحنِ خواہش کے ہر کنج میں جا بجا پھول کھلنے لگے
پھر کہاں کی خزاں تیری خاموشیاں جب چٹکنے لگیں
دفعتاً سن کے سندیس وجدان کا پھُول کھلنے لگے
چہرے پر چہرہ ہم نے پہچان لیا
جاناں! تیر ا برتاؤ بھی جان لیا
اِس بالک کی ہٹ تو ہم کو لے بیٹھی
ہم نے دل کا جانا تھا آسان لیا
جتنے بھی پیغام ہوا نے پہنچائے
ہم نے اُن ساروں کو سچا مان لیا
اور بھلا اِس مشکل کا حل کیا ہوتا
یاد اُجالا چہرۂ شب پر تان لیا
تیرے حسن کا سونا ہاتھ نہیں آیا
ہم نے چاہت کا صحرا بھی چھان لیا
چاہتا ہوں کہ تو مجھ سے رُوٹھا نہ کر
غیر کے روبرو مجھ سے رُوٹھا نہ کر
جان لے ،تیرے دم سے بقا ہے مری
عشق کی آبرو! مجھ سے رُوٹھا نہ کر
میں کہ ہوں دیپ، تو ہے شعاعیں مری
پھیل کر چار سو مجھ سے رُوٹھا نہ کر
تو کہ چندا ہے چندا سے سُورج نہ بن
ہو نہ یوں تُند خو مجھ سے رُوٹھا نہ کر
میں کہ سبزہ ہوں ،نورس ہوں دم سے ترے
اے مری آبجو! مجھ سے رُوٹھا نہ کر
در پئے آزار کچھ احباب کچھ اغیار تھے
اُن میں بھی جو سخت تھے وہ دوستوں کے وار تھے
گُرز جو ہم پر اُٹھا اپنے نشانے پر لگا
تیر چِلّے پر چڑھے جتنے جگر کے پار تھے
جان لیوا خامشی اُس کی تھی اور جو بول تھے
سب کے سب شاخِ سماعت پر تبر کی دھار تھے
کھو کے اُس چنچل کی چاہت میں یہی ہم پر کھلا
اِک ذرا سا لطف، پھر آزار ہی آزار تھے
کیا سے کیا اُس شوخ کے ہاتھوں نہ سہنے پڑ گئے
جس قدر بھی جبر کے آداب تھے، اطوار تھے