نہ اٹھا پھر کوئی رومی عجم کے لالہ زاروں سے
وہی آب و گل ایراں ، وہی تبریز ہے ساقی
Printable View
نہ اٹھا پھر کوئی رومی عجم کے لالہ زاروں سے
وہی آب و گل ایراں ، وہی تبریز ہے ساقی
فقیر راہ کو بخشے گئے اسرار سلطانی
بہا میری نوا کی دولت پرویز ہے ساقی
تین سو سال سے ہیں ہند کے میخانے بند
اب مناسب ہے ترا فیض ہو عام اے ساقی
مری مینائے غزل میں تھی ذرا سی باقی
شیخ کہتا ہے کہ ہے یہ بھی حرام اے ساقی
شیر مردوں سے ہوا بیشۂ تحقیق تہی
رہ گئے صوفی و ملا کے غلام اے ساقی
عشق کی تیغ جگر دار اڑا لی کس نے
علم کے ہاتھ میں خالی ہے نیام اے ساقی
سینہ روشن ہو تو ہے سوز سخن عین حیات
ہو نہ روشن ، تو سخن مرگ دوام اے ساقی
تو مری رات کو مہتاب سے محروم نہ رکھ
ترے پیمانے میں ہے ماہ تمام اے ساقی!
مٹا دیا مرے ساقی نے عالم من و تو
پلا کے مجھ کو مے لا الہ الا ہو
نہ مے ،نہ شعر ، نہ ساقی ، نہ شور چنگ و رباب
سکوت کوہ و لب جوۓ و لالہ خود رو!
گدائے مے کدہ کی شان بے نیازی دیکھ
پہنچ کے چشمہ حیواں پہ توڑتا ہے سبو!
مرا سبوچہ غنیمت ہے اس زمانے میں
کہ خانقاہ میں خالی ہیں صوفیوں کے کدو
میں نو نیاز ہوں ، مجھ سے حجاب ہی اولی
کہ دل سے بڑھ کے ہے میری نگاہ بے قابو
جمیل تر ہیں گل و لالہ فیض سے اس کے
نگاہ شاعر رنگیں نوا میں ہے جادو
متاع بے بہا ہے درد و سوز آرزو مندی
مقام بندگی دے کر نہ لوں شان خداوندی
حجاب اکسیر ہے آوارہ کوئے محبت کو
میری آتش کو بھڑکاتی ہے تیری دیر پیوندی
گزر اوقات کر لیتا ہے یہ کوہ و بیاباں میں
کہ شاہیں کے لیے ذلت ہے کار آشیاں بندی
زیارت گاہ اہل عزم و ہمت ہے لحد میری
کہ خاک راہ کو میں نے بتایا راز الوندی
مری مشاطگی کی کیا ضرورت حسن معنی کو
کہ فطرت خود بخود کرتی ہے لالے کی حنا بندی
تجھے یاد کیا نہیں ہے مرے دل کا وہ زمانہ
وہ ادب گہ محبت ، وہ نگہ کا تازیانہ
یہ بتان عصر حاضر کہ بنے ہیں مدرسے میں
نہ ادائے کافرانہ ، نہ تراش آزرانہ
نہیں اس کھلی فضا میں کوئی گوشۂ فراغت
یہ جہاں عجب جہاں ہے ، نہ قفس نہ آشیانہ
ہوائے دورِ مئے خوش گوار راہ میں ہے
خزاں چمن سے ہے جاتی بہار راہ میں ہے
عدم کے کوچ کی لازم ہے فکر ہستی میں
نہ کوئی شہر نہ کوئی دیار راہ میں ہے
شباب تک نہیں پہونچا ہے عالمِ طفلی
ہنوز حسنِ جوانیِ یار راہ میں ہے
طریقِ عشق کا سالک ہے واعظوں کی نہ سُن
ٹھگوں کے کہنے کا کیا اعتبار راہ میں ہے
طریقِ عشق میں اے دل عصائے آہ ہے شرط
کہیں چڑھاؤ کسی جا اتار راہ میں ہے
جگہ ہے رحم کی یار ایک ٹھوکر اس کو بھی
شہیدِ ناز کا ترے مزار راہ میں ہے
سمندِ عمر کو اللہ رے شوقِ آسایش
عناں گسستۂ و بے اختیار راہ میں ہے
نہ بدرقہ ہے نہ کوئی رفیق ساتھ اپنے
فقط عنایتِ پروردگار راہ میں ہے
نہ جائیں آپ ابھی دوپہر ہے گرمی کی
بہت سی گرد بہت سا غبار راہ میں ہے
تلاشِ یار میں کیا ڈھونڈیے کسی کا ساتھ
ہمارا سایہ ہمیں ناگوار راہ میں ہے
جنوں میں خاک اڑاتا ہے ساتھ ساتھ اپنے
شریکِ حال ہمارا غبار راہ میں ہے
سفر ہے شرط مسافر نواز بہتیرے
ہزار ہا شجرِ سایہ دار راہ میں ہے
کوئی تو دوش سے بارِ سفر اتارے گا
ہزار رہزنِ امیدوار راہ میں ہے
مقام تک بھی ہم اپنے پہنچ ہی جائیں گے
خدا تو دوست ہے دشمن ہزار راہ میں ہے
پتا یہ کوچۂ قاتل کا سن رکھ اے قاصد
بجائے سنگِ نشاں اِک مزار راہ میں ہے
بہت سی ٹھوکریں کھلوائے گا یہ حسن اُن کا
بتوں کا عشق نہیں کوہسار راہ میں ہے
پیادہ پا ہوں رواں سوئے کوچۂ قاتل
اجل مری مرے سر پر سوار راہ میں ہے
تھکیں جو پاؤں تو چل سر کے بل نہ ٹھہر آتش
گُلِ مراد ہے منزل میں خار راہ میں ہے