ہم ہیں آج پھر ملول یارو
مرجھا گئے کھِل کے پھول یارو
Printable View
ہم ہیں آج پھر ملول یارو
مرجھا گئے کھِل کے پھول یارو
گزرے ہیں خزاں نصیب ادھر سے
پیڑوں پہ جمی ہے دھول یارو
تا حدِّ خیال لالہ و گُل
تا حدِّ نظر ببول یارو
جب تک کہ ہوس رہی گُلوں کی
کانٹے بھی رہے قبول یارو
ہاں کوئی خطا نہیں تمھاری
ہاں ہم سے ہوئی ہے بھول یارو
کوئی دیکھے تو سہی یار طرح دار کا شہر
میری آنکھوں میں سجا ہے لب و رخسار کا شہر
دشت احساس میں شعلہ سا کوئی لپکا تھا
اسی بنیاد پہ تعمیر ہوا پیار کا شہر
اس کی ہر بات میں ہوتا ہے کسی بھید کا رنگ
وہ طلسمات کا پیکر ہے کہ اسرار کا شہر
میری نظروں میں چراغاں کا سماں رہتا ہے
میں کہیں جاؤں مرے ساتھ ہے دلدار کا شہر
یوں تری گرم نگاہی سے پگھلتے دیکھا
جس طرح کانچ کا گھر ہو مرے پندار کا شہر