کب سے ہوں حسرتی، یک نگہِ گرم، کہ جو
محفلِ شوق کے آداب مجھے سمجھا دے
Printable View
کب سے ہوں حسرتی، یک نگہِ گرم، کہ جو
محفلِ شوق کے آداب مجھے سمجھا دے
رختِ جاں کوئی لٹانے اِدھر آ بھی نہ سکے
ایسے مشکل تو نہیں دشتِ وفا کے جادے
بیتی یادوں کا تقاضا تو بجا ہے لیکن
گردشِ شام و سھر کیسے کوئی ٹھہرا دے
مجھ کو زنداں میں بھی مل جائے گا عنوانِ جنوں
نگہتِ گُل کو کریں قید خیاباں زادے
مانندِ صبا جدھر گئے ہم
کلیوں کو نہال کر گئے ہم
زنجیر بپا اگر گئے ہم
نغموں کی طرح بکھر گئے ہم
سورج کی کرن تھے جانے کیا تھے
ظلمت میں اُتر اُتر گئے ہم
جب بھی کوئی سنگِ راہ دیکھا
طوفاں کی طرح بپھر گئے ہم
چلنا تھا جہاں محال یارو
اس راہ سے بھی گزر گئے ہم
ہنس ہنس کے گلے ملے قضا سے
تکمیلِ حیات کر گئے ہم