وہ اُجالے کا کوئی سیلِ رواں تھا، کیا تھا؟
میری آنکھوں میں ہے اک ساعتِ دیدار اب تک
Printable View
وہ اُجالے کا کوئی سیلِ رواں تھا، کیا تھا؟
میری آنکھوں میں ہے اک ساعتِ دیدار اب تک
تیشۂ غم سے ہوئی روح تو ٹکڑے ٹکڑے
کیوں سلامت ہے مرے جسم کی دیوار اب تک
دشت و صحرا اگر بسائے ہیں
ہم گلستاں میں کب سمائے ہیں
آپ نغموں کے منتظر ہوں گے
ہم تو فریاد لے کے آئے ہیں
ایک اپنا دیا جلانے کو
تم نے لاکھوں دئے بجھائے ہیں
کیا نظر آئے گا ابھی ہم کو
یک بیک روشنی سے آئے ہیں
یوں تو سارا چمن ہمارا ہے
پھول جتنے بھی ہیں پرائے ہیں
اتر گیا تن نازک سے پتیوں کا لباس
کسی کے ہاتھ نہ آئی مگر گلاب کی باس
اب اپنے جسم کے سائے میں تھک کے بیٹھ رہو
کہیں درخت نہیں راستے میں دور نہ پاس
ہزار رنگ کی ظلمت میں لے گئی مجھ کو
بس اک چراغ کی خواہش بس اک شرار کی آس