قحط سالی نیّتِ بد پر ہے جس کی منحصر
تہمتیں سب کھیت مزدوروں پہ وہ دھر آئے گا
Printable View
قحط سالی نیّتِ بد پر ہے جس کی منحصر
تہمتیں سب کھیت مزدوروں پہ وہ دھر آئے گا
خوف کے ہاتھوں سِلے ہونٹوں سے بتلائے گا کیا
کارزارِ جبر سے جو بھی پیمبر آئے گا
سلطنت میں جو بھی رنجیدہ ہو اُس کے رنج کا
دوش ماجدؔ کس شہِ بد نظم کے سر آئے گا
چُرا کر خضر کا جامہ ہمیں وہ
سلگتی جگ ہنسائی دے رہا ہے
پڑی زد جرم کی جس پر وہ چُپ ہے
جو مجرم ہے صفائی دے رہا ہے
بگولہ گھیر کر ہر ذِی طلب کو
ثمر تک نارسائی دے رہا ہے
وہ لاوا جو سِلے ہونٹوں کے پیچھے
دہکتا ہے سُنائی دے رہا ہے
وہ دے کر زر دریدہ عصمتوں کو
اُنہیں اُن کی کمائی دے رہا ہے
تناؤ ساس کے تیور کا ماجدؔ
دُلہن کو ’منہ دِکھائی‘ دے رہا ہے
جہاں کھُلیں مرے جَوہر وہ آسماں دے دے
میں کہکشاں ہوں، مجھے نور کی کماں دے دے