کچھ اس طرح وہ حقائق کو سن کے چونک اٹھے
بکھر گئیں سرِ محفل پہیلیاں لوگو
Printable View
کچھ اس طرح وہ حقائق کو سن کے چونک اٹھے
بکھر گئیں سرِ محفل پہیلیاں لوگو
مرے لبوں سے کوئی بات بھی نہیں نکلی
مگر تراش ،کیں تم نے کہانیاں لوگو
بہارِ نو بھی انھیں پھر سجا نہیں سکتی
بکھر گئی ہیں جو پھولوں کی پتّیاں لوگو
بڑا زمانہ ہوا آشیاں کو راکھ ہوئے
مگر نگاہ ہے اب تک دھواں دھواں لوگو
خطا معاف کہ مے سے شکیبؔ منکر ہے
اسے عزیز ہیں دنیا کی تلخیاں لوگو
یہ جلوہ گاہِ ناز تماشائیوں سے ہے
رونق جہاں کی انجمن آرائیوں سے ہے
روتے ہیں دل کے زخم تو ہنستا نہیں کوئی
اتنا تو فائدہ مجھے تنہائیوں سے ہے
دیوانۂ حیات کو اک شغل چاہئیے
نادانیوں سے کام نہ دانائیوں سے ہے
قیدِ بیاں میں آئے جو ناگفتنی نہ ہو
وہ رابطہ جو قلب کی گہرائیوں سے ہے
نادِم نہیں ہوں داغِ فرو مائیگی پہ میں
تیرا بھرم بھی میری جبیں سائیوں سے ہے