اُدھر شب ہے کہ غاروں سی نہ آئے جو سمٹنے میں
اِدھر ہم سادہ دل، جن کو گماں پھر بھی سحر کا ہے
Printable View
اُدھر شب ہے کہ غاروں سی نہ آئے جو سمٹنے میں
اِدھر ہم سادہ دل، جن کو گماں پھر بھی سحر کا ہے
زمیں گروی ہوئی جس باغ کی، پروان چڑھنے کا
ہمیں کیونکر گماں سا جانے اُس کے ہر شجر کاہے
تا عمر اقتدار کو دیتے ہوئے ثبات
رکھ دی گئی بگاڑ کے ملت کی نفسیات
پیڑوں پہ پنچھیوں میں عجب سنسنی سی ہے
گیدڑ ہرن کی جب سے لگائے ہوئے ہیں گھات
مخلوق ہو کوئی بھی مگر دیکھنا یہ ہے
کرتا ہے کیا سلوک، یہاں کون، کس کے سات
اشکوں سے کب دھُلی ہے سیاہی نصیب کی
تسخیر جگنوؤں سے ہوئی کب سیاہ رات
ہم نے یہ بات کرمکِ شب تاب سے سنی
ظلمت نہ دے سکی کسی اِک بھی کرن کو مات
ماجدؔ کسی کے ہاتھ نہ آئے نہ آ سکے
کٹ کر پتنگ ڈور سے، منہ سے نکل کے بات
ٹھہراؤ کہیں صورتِ سیماب نہ آئے
کیوں چَین تجھے اے دلِ بے تاب! نہ آئے
شکوہ جو سرِ اشک ہے لفظوں میں نہ ڈھالو
کائی کہ جو تہہ میں ہے، سرِ آب نہ آئے