سیج پر شاخِ آرزُو سے گری
پتّیاں تُم مجھے بچھانے دو
Printable View
سیج پر شاخِ آرزُو سے گری
پتّیاں تُم مجھے بچھانے دو
وقت کے جلترنگ سے نہ ڈرو
اِس کو یہ ساز اب بجانے دو
جن پہ سُورج کبھی نہیں اُبھرا
وُہ اُفق اب کے جگمگانے دو
یہ اعادہ ہی بچپنے کا سہی
کُچھ گھروندے مگر بنانے دو
اشک دے گا پتہ ضرور اپنا
خاک میں یہ نمی سمانے دو
٭٭٭
لے کے پھرتی ہیں رُتیں شوخ ادائیں تیری
پھُول کھِل کھِل کے مجھے یاد دلائیں تیری
تیرے پیکر کا گماں یُوں ہے فضا پر جیسے
پالکی تھام کے پھرتی ہوں ہوائیں تیری
جب تک غمِ جہاں کے حوالے ہوئے نہیں
ہم زندگی کے جاننے والے ہوئے نہیں
کہتا ہے آفتاب ذرا دیکھنا کہ ہم
ڈوبے تھے گہری رات میں، کالے ہوئے نہیں
چلتے ہو سینہ تان کے دھرتی پہ کس لیے
تم آسماں تو سر پہ سنبھالے ہوئے نہیں