جانے نہ کرے تیرگی کیا، اُس کی نمایاں
جگنو کا کِیا، کوئی شبِ تار نہ جانے
Printable View
جانے نہ کرے تیرگی کیا، اُس کی نمایاں
جگنو کا کِیا، کوئی شبِ تار نہ جانے
پینے کو بھی چھوڑے نہ کہیں، آبِ مصفّا
سیلاب ستم کا، کوئی معیار نہ جانے
یہ ہم بے خانماں زورِ ہوا جن کو اڑا لے گا
وہی تنکے ہیں جن سے آشیاں ترتیب پائے گا
کس درجہ جھُکانا ہے یہ سر، عجز میں ماجدؔ
بندہ ہی یہ جانے، کوئی اوتار نہ جانے
چیونٹی کو ہمیشہ کسی چوٹی ہی سے دیکھے
عادل، کسی مظلوم کی تکرار نہ جانے
یہاں سرخاب کا پر جس کسی کو بھی لگے گا وہ
کسی ہم جنس سے کیونکر بھلا آنکھیں ملائے گا
کِیا خم ٹھونک کر جس ناتواں پر جبر جابر نے
پئے انصاف اب اُس کو عدالت تک بھی لائے گا
سرِ ابدان موزوں ہو چلی موجوں کی موسیقی
چٹخ کر ٹُوٹنے کی دھُن بھی اب پانی بنائے گا
رعونت کی ہَوا پھنکارتے ہونٹوں سے کہتی تھی
دِیا مشکل سے ہی کُٹیا میں اب کوئی جلائے گا
یہ ہم جو پٹّیاں آنکھوں پہ باندھے گھر سے نکلے ہیں
ہم ایسوں کو کوئی اندھا کنواں ہی لینے آئے گا
اُسے بھیجیں بھی گر ہم کارزارِ مکر میں ماجدؔ
پلٹ کر ایلچی پہلی سی بِپتا ہی سنائے گا
یابس دنوں کی یاد سے ہے سر بہ سر اداس
سرسوں کی رُت ہے اور ہے کشتِ نظر اداس
جیسے یہ اب ہیں کُند نہ تھیں اِن کی یوں سُریں
دیکھے نہیں تھے ایسے کبھی نغمہ گر اداس
ساقط ہُوا ہے جیسے اُبھرتے ہی آفتاب
اب کے کچھ اِس طرح سے ہوئے بام و در اداس
حیراں نہیں تھے یوں کبھی اشکوں کے آئینے
اُترا نہیں تھا اِن میں نگر کا نگر اداس
یوں تو اٹا نہ تھا کبھی گردِ سکوت سے
راہوں میں اِس طرح تو نہ تھا ہر شجر اداس
دونوں پہ موسموں کا اثر یوں کبھی نہ تھا
ششدر ہوں میں اِدھر تو اُدھر میرا گھر اداس
جیسے الاؤ پر سے کبوتر گزر کے آئے
لَوٹا ہے اب کے ہو کے بہت نامہ بر اداس
پہروں کے پہر،یُوں کبھی گڈ مڈ ہوئے نہ تھے
شب ہے اداس، شام اداس اور سحر اداس
پُورا ہُوا تو ساتھ ہی گھٹنے لگا یہ چاند
ماجد ہے اِس حیات کا سارا سفر اداس
آ دیکھ گُل بہ گُل ہے ترے تن بدن کی باس
اُتری ہے چاند تک میں ترے پیرہن کی باس
گل جس طرح رہے ہوں کبھی ہم نشین خاک
مجھ میں بھی اِس طرح کی ہے تجھ سے ملن کی باس
ہاں ہاں مجھے جلائے جو تیرے فراق میں
ہر رگ میں جاگزیں ہے اُسی اِک اگن کی باس
یوں اب کے اشک یاد میں تیری بہا کیے
بارش برس کے عام کرے جیسے بن کی باس
کھٹکا یہی تو تجھ سے مجھے ابتدا سے تھا
جانا ں!تجھے بھی کھینچ نہ لے جائے دَھن کی باس
اب کے بھی چاند چہرہ دکھایا نہیں ہم نہیں بولتے
آپ نے اپنا وعدہ نبھایا نہیں ہم نہیں بولتے
وہ کہ پہلے پہل سرخ ہونٹوں پہ تھا مژدۂ عید سا
کوئی مژدہ پھر ایسا سنایا نہیں ہم نہیں بولتے
چاہتوں کا جو سندیس لیکر گیا آپ تک آپ نے
بام سے وہ کبوتر اڑایا نہیں ہم نہیں بولتے
مثل شعلوں کے لَو دے اٹھے جو بہ سطحِ نظر آپ نے
پیرہن وہ بدن پر سجایا نہیں ہم نہیں بولتے
وہ کہ مہکار جس کی بہ شدّت ہمیں بھی بلاتی کبھی
پھول انگناں میں ایسا کھلایا نہیں ہم نہیں بولتے
آپ ہی نے رازِ دل پوچھا نہیں
ہم نہ بتلا تے، نہیں، ایسا نہیں
آپ سے ملنے کا ایسا تھا نشہ
رنگ تھا جیسے کوئی ،اُترا نہیں
سنگ دل تھے اہلِ دنیا بھی بہت
آپ نے بھی ،پیا ر سے دیکھا نہیں
دم بدم تھیں اِک ہمِیں پر یورشیں
تختۂ غیراں کبھی الٹا نہیں
توڑنا، پھر جوڑنا، پھر توڑنا
ہم کھلونوں پر کرم کیا کیا نہیں
اپنے پیاروں کو جی سے بھُلانے لگے تم نے اچّھا کیا
غیر سارے تمہیں یاد آنے لگے تم نے اچّھا کیا
تم نے ان سب کو بھی اپنا دامن جھٹک کر پرے کر دیا
جن کو تم تک پہنچتے زمانے لگے تم نے اچّھا کیا
تم نے دیکھا نہ اہلِ ریا کون، اہلِ صفا کون ہیں
یہ حقائق بھی تم کو فسانے لگے تم نے اچّھا کیا
تم نے سمجھا نہ یہ حرص والے ہی کیونکر سرافراز ہیں
اور کیوں اہلِ دل ہیں ٹھکانے لگے تم نے اچّھا کیا
تم کہ بادِ صبا تھے تم ہی بادِ صرصر میں ڈھلنے لگے
جتنی آنکھیں بھی نم تھیں جلانے لگے تم نے اچّھا کیا