تھی جو محبتوں میں نزاکت نہیں رہی
کیا عشق کیجئے کہ روایت نہیں رہی
Printable View
تھی جو محبتوں میں نزاکت نہیں رہی
کیا عشق کیجئے کہ روایت نہیں رہی
رسوائیوں سے بڑھ تو گیا زندگی کا بوجھ
پر یہ ہوا کہ خود سے ندامت نہیں رہی
روپ موسم ِ گل اور خزاں نے دھارے ہیں
ایک میری آہوں کا اک ترے تبسم کا
نشاط ِ رنج ہو رنج ِ نشاط ہو کچھ ہو
حیات رقص ہے وحشت کا اور دائرہ وار
چاہا تھا جسے وہ مل بھی گیا پر خواب بھرے ہیں آنکھوں میں
اے میرے لہو کی لہر بتا اب کون سے میں عالم میں ہوں
اُس لمحے تو گردش ِ خوں نے میری یہ محسوس کیا
جیسے سر پہ زمیں اٹھائے اک رقص پیہم میں ہوں
جو لکھے وہ خواب مرے اب آنکھوں آنکھوں میں زندہ ہیں
جواب تک نہیں لکھ پایا میں اُن خوابوں کے غم میں ہوں
اول اول بول رہے تھے خواب بھری حیرانی میں
پھر ہم دونوں چلے گئے پاتال سے گہرے راز میں چپ
میری نہیں گر تو اپنی خاطر
لوٹ آؤ دل و نگاہ لوٹ آؤ
وہ روشنی کہ آنکھ اُٹھائی نہیں گئی
کل مجھ سے میرا چاند بہت ہی قریب تھا