ملا ہوا تھا گریباں بھی اس کے دامن سے
کیا اور میرے بدن پر نقاب دیتا کوئی
Printable View
ملا ہوا تھا گریباں بھی اس کے دامن سے
کیا اور میرے بدن پر نقاب دیتا کوئی
گمان ہوتا سفر میں چمن سے گزرے ہیں
کہ سوکھا ہی سہی ہم کو گلاب دیتا کوئی
چٹخ کے دھوپ میں راحت بدن کو ملنے لگی
تو کیسے چھاؤں کا آخر عذاب دیتا کوئی
ہمارے نام دعائیں اسی کو لگتی گئیں
تو بد دعا ہمیں خانہ خراب دیتا کوئی
اُدھر کنارِ لب و چشم ہیں عتاب وہی
سخن کی شاخ پہ رقصاں اِدھر گلاب وہی
وہی ہے جبرِ زماں، خود فریبیاں بھی وہی
سفید بال ہمارے وہی، خضاب وہی
ردائے ابر کو جو کشتِ بے گیاہ سے ہے
یہاں سروں سے ہے چھایا کو اجتناب وہی
فرازِ عرش سے نسبت رہی جسے ماجد
دل و نظر پہ اُترنے لگی کتاب وہی
دِہر فصیلِ ستم تا بہ آسمان بلند
ہمارا رخت اِدھر ایک چیونٹیوں سی کمند
نجانے کیوں ہمیں اپنی اُڑان یاد آئی
ہوئی پتنگ جہاں بھی زمین سے پیوند