ہوا ہے طے وہ سفر ایک جست میں مجھ سے
کہ جس پہ پاؤں بھی دھرتے تجھے زمانے لگے
Printable View
ہوا ہے طے وہ سفر ایک جست میں مجھ سے
کہ جس پہ پاؤں بھی دھرتے تجھے زمانے لگے
منزل کی جستجو میں تو چلنا بھی شرط تھا
چنگاریوں کے کھیل میں جلنا بھی شرط تھا
یہ اذن تھا کہ خواب ہوں رنگین خون سے
اور جاگنے پہ رنگ بدلنا بھی شرط تھا
مجروح ہو کے درد چھپانا تھا لازمی
اور زخم آشنائی کا پھلنا بھی شرط تھا
گرنا تھا ہو قدم پہ مگر حوصلے کے ساتھ
اور گر کے بار بار سنبھلنا بھی شرط تھا
اُس حسن سرد مہر کے قانون تھے عجیب
اپنا جگر چبا کے نگلنا بھی شرط تھا
اپنے خلاف فیصلہ لکھنا تھا خود مجھے
پھر اُس بریدہ ہاتھ کو ملنا بھی شرط تھا
سوال کرتے اگر وہ جواب دیتا کوئی
ہر ایک زخم کا کیسے حساب دیتا کوئی
یہ ابجدِ غمِ جاناں تو ہو گئی ازبر
جہاں کی نوحہ گری پر کتاب دیتا کوئی
شبِ فراقِ مسلسل میں چشمِ تر اپنی
لگی کہاں کہ وہ آنکھوں کو خواب دیتا کوئی