مشکل ہے بغیرِ قرب تیرے
اِس رُوح و بدن کا اب سنبھلنا
Printable View
مشکل ہے بغیرِ قرب تیرے
اِس رُوح و بدن کا اب سنبھلنا
یہ اذنِ طرب ترے لبوں پر
خوشبو کا کلی سے ہے نکلنا
موزوں ہے سخن تجھے یہ ماجدؔ
پہلو کوئی اور مت بدلنا
سر سے تا پا حجاب سا وُہ
کمیاب ہے لعلِ ناب سا وُہ
اُبھرے بھی جو سطحِ آرزُو پر
روکے نہ رُکے حباب سا وُہ
خوشبُو سا خیال میں دَر آئے
آنکھوں میںبسے گلاب سا وُہ
سب تلخ حقیقتوں پہ حاوی
رہتا ہے نظر میں خواب سا وُہ
حاصل ہے سرشکِ لالہ رُو کا
محجوب سا، دُرِّ آب سا وُہ
چھایا ہے بہ لُطف ہر ادا سے
خواہش پہ مری نقاب سا وہ
ہُوں جیسے، اُسی کے دم سے قائم
تھامے ہے مجھے طناب سا وُہ